vni.global
Viral News International

نقاب پوش چہروں اور دستانے پہنے ہاتھوں سے مودبانہ درخواست

کالم : محمد ذوالفقار پشاوری

دنیا کا کوئی بھی ملک ہو حکمرانوں کے بغیر نہیں چل سکتا پاکستانی عوام کی بدقسمتی ہے کہ75 سالوں میں قائد اعظم کی وفات کے بعد انہیں ڈھنگ کے حکمران نہیں ملے کچھ صرف اقتدار کے چور تھے تو کچھ مال اور اقتدار دونوں کے چور تھے اور کچھ نے حکومت کو کھیل سمجھ رکھا ہے ایسے حکمرانوں کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کے دور حکومت میں ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے لیکن حکمرانوں کے ٹھاٹ بھاٹ میں کوئی کمی نہیں آتی ایسے ملکوں کی عوام بھوک ننگ اور افلاس کا شکار رہتی ہے باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے ملکوں میں ڈکٹیٹر تو اپنے زور بازو سے حکمران بنتے ہیں لیکن سویلین ڈکٹیٹر الیکشن کے ڈرامے کے باوجود آتے نہیں لائے جاتے ہیں۔ایسے الیکشن آرا ء الیکشن کہلاتے ہیں یہاں کے ملٹری ڈکٹیٹر اپنے من پسند لوگوں کو حکمران ہی نہیں بناتے اپنی عمر بھی انہیں دئیے جاتے ہیں۔

کوئی جنرل کسی ویٹر کا کلاہ کسی کو پہناوے تو وہ حکمران بن جاتا ہے جھوٹ پر یہاں کوئی گرفت نہیں ہوتی سیاستدان عوام کو جتنے چاہیں سبز باغ دکھاسکتے ہیں جو الیکشن کے بعد ریگستان ثابت ہوتے ہیں باخبر لوگوں کا یہ بھی فرمانا ہے کہ ایسے ملکوں کے حکمرانوں بین الاقوامی مالیاتی اداروں، عالمی طاقتوں اور مالدار دوستوں کے تعاون سے حکمران بنتے ہیں اور بعد میں ان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ ہمارا ملک ان ملکوں میں شامل ہے یا نہیں اس کا فیصلہ آپ نے کرنا ہے لیکن قیامت کی نشانیوں کی طرح اوپر بیان کی گئی نشانیوں ہمارے ہاں بند آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہیں حکومتوں سے نکالے گئے سیاستدان کچھ نقاب پوش چہروں اور دستانے پہنے لوگوں کا نام لئے بغیر اشاروں کنایوں میں ان کا ذکرکرتے رہتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کی ڈوریں ان دستانے پہنے لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں ملک سے بھاگے ہوئے ایک حکمران نے ان کا ہاتھ خلائی مخلوق رکھا ہوا ہے واللہ اعلم بالصواب۔
چند دن پہلے دوستوں کی محفل میں ہمارے ایک سابقہ بیوروکریٹ دوست موجودہ حکومت کی اعلی کارکردگی اور وژن پر گفتگو فرما رہے تھے کہ کس طرح یہ حکومت بجلی گیس اور پٹرول کے نرخ بڑھا کر عوام کو بجلی پٹرول، گیس کے بغیر زندگی گزارنے کی راہ دکھا رہی ہے کیونکہ اس حکومت کے کرتا دھرتاؤں کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ بجلی پٹرول اور گیس سے پہلے بھی انسان انتہائی خوشحال اور پرسکون زندگی گزارتے تھے اور اب کیوں نہیں گزار سکتے۔ ہمارے وزیر اعظم اپنے خطاب سے قوم کواس بات پر باآسانی آمادہ کر لیں گے۔وزیر اعظم پہلے بھی اپنے خطابوں سے عوام کو مہنگائی برداشت کرنے پر آمادہ کرچکے ہیں دوران گفتگو ہمارے دوسرے دوست نے بیوروکریٹ دوست سے سوال کیا کہ جناب کیا آپ ایسی خلائی یا ہوائی مخلوق سے واقف ہیں تو بیورو کریٹ دوست نے حیران ہوکر جواب دیا کہ میں تو کسی ایسی مخلوق سے واقف نہیں لیکن آپ کا اس سے کیا کام ہے ہمارے دوسرے دوست کہنے لگے کہ ذاتی کام تو کوئی نہیں ان سے صرف ایک دست بستہ درخواست کرنی ہے کہ جناب آپ کوئی بھی ہیں اور حکمران بنانے میں آپ کا کوئی کردار ہے تو خدا کیلئے ہمارے لئے کوئی ڈھنگ کا حکمران تو تلاش کریں کیا آپ کو 24کروڑ لوگوں کے ملک میں کوئی ڈھنگ کا حکمران نہیں ملتا جس کے دور حکومت میں عوام سکھ کا سانس لے سکیں اور عوام کے عذاب کے دن ختم ہوں جو 75 سالوں سے یہ عذاب برداشت کررہے ہیں۔ ہمارے دوست کی اس درخواست پر ہمارے تیسرے دوست نے کہا کہ یہ خلائی مخلوق وغیرہ سیاستدانوں کے ذہن کی اختراح ہے جس طرح موجودہ حکمرانوں اپنی ناکامیوں کا ملبہ سابقہ حکمرانوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں اسی طرح سابقہ حکمران اپنی ناکامیوں کا ملبہ ہوائی مخلوق پر ڈال کر خود کو بے گنا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ آخر انہوں نے بھی اپنی ناکامیوں کا ملبہ کسی نہ کسی پر تو ڈالنا ہے اور بے نام اور بے شناخت لوگوں پر ملبہ ڈالنا ان کیلئے آسان بھی ہے اور کارآمد بھی۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.