vni.global
Viral News International

ملکی حالات بہتر بنانے کا آسان نسخہ

کالم :محمد ذوالفقار پشاوری

آپ پاکستانی حکمرانوں کا گذشتہ کئی دہائیوں کا ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں۔ حکومت سے نکالے جانے کے بعد انکا بیانیہ تقریباً ایک سا ہی ہوتا ہے۔ ”مجھے تو کچھ پتا ہی نہیں تھا“ ”مجھے کچھ کرنے نہیں دیا گیا“ اور مجھ سے یہ سب کروانے والے کوئی اور تھے۔ آج کل یہ راگ ہمارے سابق حکمران جناب عمران خان صاحب صبح شام الاپ رہے ہیں۔ ملک کے سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب اور انکے وسیم اکرم پلس سی ایم پنجاب عثمان بزدار صاحب میں ”ع“ کے علاوہ ایک اور بات مشترک تھی کہ دونوں ٹرینی حکمران تھے۔ اس لیے خان صاحب نے اپنی حکومت کرکٹ میچ کی طرح اور بزدار صاحب نے بکریوں کے ریوڑ کی طرح چلائی اور ساڑھے تین سال میں ہی فارغ ہو کر گھر چلے گئے۔ لیکن اس کے باوجود خان صاحب ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ جس کی وجہ اُنکی شاندار کارکردگی نہیں اُن کے بعد آنے والی حکومت کی اُن سے بھی بُری کارکردگی ہے۔ جو نالائقیوں کا35سالہ تجربہ رکھتی ہے۔
لگتا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت اقتدار میں صرف اپنے اوپر بنے کرپشن کیسز ختم کروانے اور احتساب کے اداروں کے بال و پر کاٹنے کے لئے آئی ہے تاکہ اپنے حال کے علاوہ مستقبل سے بھی بے فکر ہو جائے۔ قیامت کی نشانی ہے کہ آج وہی ادارے انہیں آزادی دلانے میں انکی معاونت کر رہے ہیں۔ جنہوں نے اُن پر یہ کیسز بنائے تھے۔ اس وقت شریف خاندان اور زرداری خان کے سارے سزا یافتہ گان ماسوائے نواز شریف کے، اپنے سابقہ کیسز سے بری ہو چکے ہیں۔ اور یہ جلد ہی نواز شریف کی بریت کا بندو بست بھی کر لیں گے۔ ان ساری کاروائیوں میں ملکی معیشت آئی سی یو سے وینٹی لیٹر پر پہنچ گئی ہے اور پی ڈی ایم رہنما اِس معاشی بربادی پر چین کی بانسری بجا رہی ہے۔
اس وقت عالمی برادری ہو یا مسلمان ممالک کوئی ہمیں ایک ڈالر قرض دینے کو تیار نہیں۔ صرف ایک آئی ایم ایف ہے جو عوام کو ذبح کرنے کے بدلے ہمیں قرض دینے پر تیار رہتی ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف ہمیں جن شرائط پر قرض دینے پر راضی ہوئی ہے اُس سے غریب عوام کی کثیر تعداد بھوک سے مر جائے گی۔ اِن لوگوں کی زندگی بچانے کے لئے پی ڈی ایم حکومت کے سامنے حکومتی ارکان کی دو تجاویز ہیں۔ نمبر1: غریب عوام کی بڑی تعداد غلام بنا کر مالدار ملکوں کو بیچ دی جائے۔ اس طرح یہ غریب مرنے سے بھی بچ جائیں گے اور ملک کو زرِمبادلہ بھی مل جائے گا۔ جبکہ دوسرا آپشن غریب عوام کے جسمانی اعضا کی عالمی منڈیوں میں فروخت کا ہے۔ ویسے تو یہ غریب لوگ اپنے ملک میں بھی اپنے اعضا بیچتے رہتے ہیں اور اب تو اِنکے گردے چوری بھی ہوتے ہیں۔ بہرحال حکومت جو بھی آپشن اپنائے ملک کو زرِ مبادلہ ملے گا جس سے حکمرانوں کو حکومت چلانے میں سہولت ہو جائے گی۔ حکومتی ارکان اور اداروں کے لئے مزید نئی گاڑیاں آجائیں گی۔ پارلیمنٹ کے ارکان کی تنخواہوں اور الاؤنسزبڑھانے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی اور حکومت کے لئے راوی چین ہی چین لکھے گا۔
اِس ساری صورت حال کو سامنے رکھیں تو آپ کے لیے پاکستان کی آنے والی حکومتوں کی تصویر کشی مشکل نہیں ہو گی۔ 2023؁ء کے الیکشن کے بعد اگر پی ٹی آئی حکومت میں آگئی تو وہ اپنے اگلے 5سال پی ڈی ایم حکومت کو کوسنے میں گزار دے گی اور اگر پی ڈی ایم برسرِاقتدار آگئی وہ اپنے5سال پی ٹی آئی کو کوسنے اور برا بھلا کہنے میں گزارے گی۔ جبکہ دونوں کی نالائقیوں سے بھرا گند کا ٹوکرا صرف اور صرف پاکستان کے عوام پر گرے گا۔ جو اپنے بال بچے بھوک سے مروانے کے بعد بھی ان کی محبت سے دستبردار نہیں ہو رہی۔ اس تمام صورت حال سے بچنے کا ایک ہی حل ہے کہ کوئی چوتھا آپشن تلاش کیا جائے۔ ایسا ہونے سے ملک بھی بچ جائے گا اور غریب عوام بھی۔ ورنہ زمین و آسماں پر ہمارے لیے جو فیصلے ہو رہے ہیں وہ اچھے نہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنی حالت بہتر بناتے ہیں یا جو چل رہا ہے اُسے یونہی چلتے رہنے دیتے ہیں۔ اگر ہم یونہی چلتے رہے تو ایسے اندھے کنوئیں میں گریں گے۔ جس سے نکلنا مشکل ہی نہیں تقریباً نا ممکن ہو گا۔ مالک کائنات ہماری حالت پر رحم فرمائے۔ آمین
حالانکہ علامہ اقبال بہت پہلے لوگوں کو سمجھانے کے لئے ”خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا“ والے شعر میں اس بات کا اظہار کر چکے ہیں۔لیکن تب بھی علامہ صاحب کی اس بات پر کسی نے عمل نہیں کیا تھا اور آج بھی کوئی عمل کرنے کو تیار نہیں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.