vni.global
Viral News International

الیکشن کمیشن چاھے تو کم خرچ انتخابات کرواسکتا ہے

کالم :محمد ذوالفقارپشاوری

ہمارے پروفیسر صاحب کے مطابق پاکستان کے 75 سالہ سیاسی معاشی زوال کا ایک سبب ہمارے حکمرانوں اور عوام کا خود کو عقل کل سمجھنے والے دماغی فتور اور من مانے فیصلے ہیں ۔اپنی اس دلیل کے بارے میں ان کا فرمان ہے کہ دیکھو ہم ہمیشہ اپنا سیدھا کان سیدھے ہاتھ سے نہیں الٹے ہاتھ سے پکڑتے ہیں کوئی فیصلہ وقت پر نہیں کرتے ۔ رائیٹ ٹرن کی بجائے یو ٹرن اور اباؤٹ ٹرن کو ترجیح دیتے ہیں ۔ادارے ہوں یا افراد مکھی پہ مکھی مارتے  رہتے ہیں جیسے ہمارے قریب ترین دو ہمسایہ ممالک ہیں دونوں شروع سے ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن ان میں سے ایک کو ہم نے باقاعدہ گود لے رکھا ہے اور دوسرے سے ہم اپنے فائدے کی تجارت کرنا بھی پسند نہیں کرتے جبکہ اس ملک کا سامان کسی تیسرے ملک کے ذریعے ڈبل قیمت پر منگوانے میں ہمیں کوئی شرمندگی نہیں ہوتی ۔ اپنی گندم اور چینی سستے داموں بیچ کر دوبارہ یہی اجناس مہنگے داموں خریدتے ہیں بچے جمہوریہ حکمرانوں کو بادشاہوں والی مراعات دیتے ہیں یہاں کے سیاسی زعما حکمرانی یہاں اور جائیدادیں بیرون ملک رکھتے ہیں ملک کو اربوں روپے سالانہ کا نقصان پہنچانے والے سفید ہاتھی جیسے اداروں کو پالتے رہنا ہمارا قومی مزاج ہے اور ایسے کام اور شوق پالنے والی عوام کبھی خوشحال نہیں ہوتی۔

پروفیسر صاحب کی یہ باتیں سن کر ان سے پوچھا گیا کہ سر حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے جن دو صوبائی اسمبلیوں کے پی کے اور پنجاب میں 90دنوں میں انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے کیا اس سے ملک کا سیاسی اور معاشی بحران ختم ہوجائے گا ؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آئینی طور پر بالکل درست تھا لیکن معزز جج صاحبان کو ان اسمبلیوں کو توڑنے والوں سے پوچھنا چاہیے تھا کہ کیا اسمبلیاں مٹی کے فالتو برتن ہوتی ہیں جنہیں آپ اتنی آسانی کے ساتھ توڑ دیتے ہیں یا آپکی خالہ جی کا گھر ہوتی ہیں کہ جب جی چاہے تشریف لائیں اور جب جی چاہے اٹھکر چلے جائیں۔ان اسمبلیوں کے الیکشن پر غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اگر تو اس الیکشن پر خرچ ہونے والے پیسے اسمبلیاں توڑنے والی جماعت اپی جیب سے ادا کرتی ہے تو شوق سے ہر ہفتے اسمبلی توڑکر نئے الیکشن کروالیا کریں لیکن غریب عوام کی جیب پر تو یہ بوجھ نہ ڈالے۔غریب عوام تو پہلے ہی روٹی کیلئے دربدر پھر رہی ہے اور اسکی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ۔

ان الیکشن اخراجات کے بارے میں الیکشن کمیشن پہلے ہی بتا چکا ہے کہ نہ تو حکومت انہیں اسے ان الیکشن کیلئے پیسے دے رہی ہے اور نہ ہی باقی قومی ادارے انتظامی طور پر ان کی معاونت کی حامی بھررہے ہیں ان حالات میں وہ الیکشن کیسے کرائیں گے۔

یہاں تک بات کرکے پروفیسر صاحب نے پانی پیا اور دوبارہ بات شروع کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ اگر الیشن کمیشن چاھے تو یہ الیشن اربوں روپے کی بجائے چند کروڑ میں بھی کرواسکتا ہے اسے صرف انتخابات کا طریقہ کار بدلنا ہوگا اور نئے طریقہ کار کے مطابق اسے یہ الیکشن ووٹ کی پرچی کی بجائے پرانے زمانے کیطرح پرندوں کی مدد سے کروانا ہونگے ۔الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے کاغزات نامزدگی پرانے طریقے سے ہی داخل ہوں گے اور نمائندوں کی سلیکشن بھی پرانے طریقے سے ہی کی  جائے گی فرق صرف یہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن ہر پارٹی کے ارکان کے حساب سے اس پارٹی کے نشان لگے ہوئے پرندوں کی خوراک والے برتنوں میں پرندوں کی خوراک ڈال کر مخصوص دائرے میں رکھدے گا اس کے بعد دو دن کے بھوکے پرندوں کو ہوا میں چھوڑ دیگا لامحالہ یہ بھوکے پرندے خوراک دیکھ کر ان برتنوں پر آکر بیٹھیں گے ۔ اس موقع پر الیکشن کمیشن کے کارندے مختلف جماعتوں کے نشانات لگے برتنوں پر بیٹھے پرندوں کوشمار کرلیں کہ کس جماعت کے کتنے پرندے ان برتنوں پر بیٹھے ہیں اور اسی حساب سے اس  جماعت کو سیٹیں الاٹ کردیں اور باقی کام ان جماعتوں پر چھوڑ دیں کہ وہ ان سیٹوں پر اپنے کن ارکان کو بھیجتے ہیں ۔ انتخابات کا یہ طریقہ کار قومی و صوبائی دونوں اسمبلیوں کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اس طریقہ سے نہ تو قوم کے اربوں روپے خرچ ہونگے اور نہ کوئی جماعت کسی پر دھاندلی کا الزام لگاسکے گی ایسے میں ان اداروں کی نیک نامی پر بھی کوئی حرف نہیں آئیگاجنہیں ہارنے والی سیاسی جماعتیں ہمیشہ موردالزام ٹھہرادیتی ہیں ۔ ان انتخابات میں کن پرندوں کا استعمال کرنا ہے اس بات پر تمام جماعتوں کا متفق ہونا بہت ضروری ہے۔صرف یہ خیال رکھا جائے کہ گدھ اور الو کا اس انتخاب میں استعمال نہ کیا جائے کیونکہ یہ دونوں پرندوں نشان دزہ خوراک کے برتنوں سے بھی اپنے ہم خصلت امیدواروں یا پارٹی کا اندازہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں جتوا کر دھاندلی کرسکتے ہیں ۔پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ اس طریقہ انتخاب کیلئے قومی سطح پر ڈیبیٹ بھی کرائی جاسکتی ہے جس سے اس طریقہ کار میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے اور ہر روز بال کی کھال نکالنے والے ٹی وی شوز بھی اس نظام میں بہتری لانے کیلئے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔

ہم نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش تو کریں ایک ڈھونڈیں دس ملیں گے۔ آخر نیب قوانین میں تبدیلی لاکر ہم نے پونے پچاس کروڑ روپے کی کرپشن کوکیا جائز نہیں بنالیا؟۔ سیاسی رہنما اب پونے پچاس پچاس کروڑ روپے کی کرپشن پچاس مرتبہ بھی کرلیں نیب ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔احتیاط صرف اس بات کی کرنی ہوتی ہے کہ کرپشن پچاس کروڑ روپے کی حد عبور نہ کرے اور ایسا کرنا کون سا مشکل کام ہے ۔ بڑے بڑے اکاؤٹنٹ اسی کام کیلئے تو ہوتے ہیں صرف انہیں فیس بھاری دینی پڑتی ہے ۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.