vni.global
Viral News International

پاکستان کے ٹریلین ڈالر کے اثاثے اور ڈار صاحب کی بطور وزیر خزانہ وطن واپسی

کالم:محمد ذوالفقار پشاوری

ہمارے دوست مرزا صاحب اس مرتبہ تشریف لائے تو بیٹھتے ہی ہم سے سوال کیا کہ تم نے ڈار صاحب کا پاکستان کے ٹریلین ڈالر والا بیان پڑھا ہے؟ ہم نے ہاں میں جواب دیا اور کہا کہ وزیر اکثر ایسے بیان دیتے رہتے ہیں اس میں نیا کیا ہے۔ ڈار صاحب اِس سے پہلے بھی ہمارے بیرون ملک پڑے 200ارب ڈالر والے بیان سے اسد عمر اور مراد سعید کو بیوقوف بنا چکے ہیں۔ اس پر مرزا صاحب بولے کہ یہ بیان اس طرح کا نہیں ہے۔ اس مختصر بیان میں ڈار صاحب نے پاکستانی عوام، خواص، حکومتِ وقت اور عالمی مالیاتی اداروں کو علیحدہ علیحدہ پیغام دیا ہے۔ اُنکا بیان ہے کہ پاکستان پر قرض ہے تو کیا؟ پاکستان کے پاس ٹریلین ڈالر کے اثاثے ہیں۔ لیکن یہاں وہ یہ بات گول کر گئے کہ کتنے ٹریلین ڈالر ہیں اور یہ بھی نہیں بتایا کہ اس میں حساس اثاثے جیسے مینار پاکستان، شاہی قلعہ، شالیمار باغ وغیرہ بھی شامل ہیں یا نہیں۔ آگے چل کر وہ کہتے ہیں کہ مسائل کا فوری حل ممکن نہیں اور عوام خواہشات کی فہرست محدود رکھے۔ ان کے بیان کا یہ حصہ صرف پاکستان کی غریب عوام کے لئے ہے کیونکہ پاکستان میں مسائل ہیں ہی غریب کے لئے، تو انہیں خبردار کیا جا رہا ہے کہ ”جاگدے رہنڑا، تے ساڈے تے نہ رہنڑا“۔ یعنی ہم سے کوئی توقع نہ رکھنا۔
یہاں تک کہہ کر مرزا صاحب نے پھر ہم سے سوال کیا کہ کیا پاکستانی قوم ڈار صاحب کو نہیں پہچانتی؟ تمہیں وہ وقت تو یاد ہو گا جب اپنی جان خلاصی کے لئے ڈار صاحب نے نواز شریف صاحب کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا تھا اور بعد میں اپنے ہی بیان حلفی سے مُکر گئے تھے۔ ڈار صاحب خطرے کو بہت جلد بھانپ لیتے ہیں اِسی لیے ن لیگ کی پچھلی حکومت میں جیسے ہی انہیں اپنے گرد نیب کاگھیرا تنگ ہوتا دِکھائی دیا تو یہ چپکے سے اُسوقت کے وزیر اعظم خاقان عباسی صاحب کے جہاز میں بیٹھ کر لندن چلے گئے تھے اور وہاں پہنچتے ہی ان کی کمر کے مُہرے بیٹھ گئے۔ اُسوقت جب پاکستان سے نیب عدالتیں انہیں حاضری کا کہتیں تو یہ وہاں سے انہیں اپنے اسپتال داخلے اور ڈاکٹروں کی رپورٹس بھیجوا دیتے جن میں لکھا ہوتا کہ مریض کی صحت اس قابل نہیں کہ وہ پاکستان تک سفر کر سکے۔ اُن کی باحالی صحت تک انتظار فرمائیے۔ اُ سوقت لندن کے ہسپتالوں سے بھجوائی گئی اُن کی بعض تصویریں تو ایسی تھیں جنہیں دیکھ کر اُن کے مخالفین بھی اُن کی صحت اور زندگی کی دعا کے لئے بزرگوں کے آستانوں پر جایا کرتے۔ پھر نا جانے کِس کی دعاؤں نے اثر دکھایا اور پاکستان میں پی ڈی ایم برسرِ اقتدار آگئی۔ شہباز شریف صاحب فرد جُرم لگنے سے بال بال بچے اور مجرم بننے کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ پاکستان میں ہونے والی اس تبدیلی کے مثبت اثرات لندن میں موجود مریضوں کی صحت پر بھی پڑے اور اُن کی بیماریاں ختم ہونے لگیں اور پاکستان واپسی کے گرین سگنل نے ڈار صاحب کو مکمل تندرست کر دیا اور وہ پاکستان آکر ایک بار پھر وزیر خزانہ بن گئے۔ وزیر خزانہ بنتے ہی سب سے پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ اپنا50کروڑ کا منجمند اکاؤنٹ اور اتنی ہی مالیت کا اپنا ضبط شدہ مکان واگزار کروایا اور آتے ہی تقریباً ایک ارب کا فائدہ اٹھا لیا۔ یہاں تک پہنچ کر مرزا صاحب نے پانی پیا اور کہنے لگے کہ پہلے ہم اُن کے دیے ہوئے بیان سے غریب عوام کو دیے جانے والے پیغام کا جائزہ لیتے ہیں۔ ڈار صاحب نے اپنے بیان میں غریب عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کے ٹریلین ڈالر کے اثاثوں کے باوجود غریبوں کے مسائل کا فوری حل ممکن نہیں۔ اس لیے عوام ہماری حکومت سے یہ توقع نہ رکھیں کہ ہم اُنہیں کسی قسم کا ریلیف دیں گے۔ دوسرا ہم آئی ایم ایف کی شرائط کے احترام میں پٹرول، گیس،بجلی کے ریٹ بھی بڑھاتے رہیں گے۔ ڈالر کا ریٹ بھی کم نہیں کریں گے کیونکہ ایسا کرنے سے ہمارے ملک کے سرمایہ کاروں اور سرمایہ داروں کے بیرون ملک پڑے اثاثوں میں کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے اُنکی وہاں پر مقیم آل اولاد کے ٹھاٹھ بھاٹھ میں کمی ہو سکتی ہے۔ جو انہیں منظور نہیں۔ ڈار صاحب کے بیان میں عوام کی محدود خواہشات کا مطلب یہ ہے کہ اگر آٹا175روپے کلو ہے تو روٹی کم کھائیں۔ گیس مزید50% مہنگی ہوئی ہے تو کم سے کم استعمال کریں۔ ملک میں مہنگائی کی حکومتی شرح 45فیصد اور حقیقی شرح 145فیصد ہے تو حکومت کو قصور وار نہ ٹھہرائیں کیونکہ اس وقت ساری دنیا مہنگائی کی لپیٹ میں آئی ہوئی ہے۔ یہاں حکومت پی ڈی ایم کی ہو یا پی ٹی آئی یا کسی اور کی، عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے گی کیونکہ پاکستان کے حکمران عوام کو ریلیف دینے کے لئے نہیں۔ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے مراعات اور ریلیف لینے کے لیے حکمران بنتے ہیں۔
مرزا صاحب کے بقول ڈار صاحب کے بیان میں خواص کے لئے یہ پیغام ہے کہ وہ پاکستان کے قرضوں سے پریشان نا ہوں اُن کی ذخیرہ اندوزی، چور بازاری اور ناجائز منافع خوری کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ وہ اپنے بچوں کی شادیوں پر کروڑوں روپے لگائیں۔ فائیو اسٹار ہوٹلوں کی رونقیں بڑھائیں یا بڑی بڑی گاڑیاں اور کوٹھیاں بنائیں انہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔ خیال رہے ہمارے آپ کے یہ مزے پاکستان میں ہی ہیں۔ لندن میں ہماری اتنی دولت کے باوجود وہاں کے لوگ ہماری عزت نہیں کرتے۔ اتنے بدتمیزہیں کہ راہ چلتے ہم پر آوازے کستے اور جگتیں مارتے ہیں اور ہم اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ مرزا صاحب کے کہنے کے مطابق ڈار صاحب نے حکومت کو بھی یہی پیغام دیا ہے کہ وہ پاکستان پر موجود قرضوں سے پریشان نہ ہوں۔ آخر یہ غریب پاکستانی عوام کس مرض کی دوا ہے۔ وہ یہ قرض اُتارتی رہے گی چاہے خود کو بیچے۔ یہاں قرض لینا حکومتوں کا مسئلہ ہوتا ہے قرض دینا نہیں۔
یہاں تک بات کر کے مرزا صاحب نے کچھ توقف کیا اور دوبارہ بولے کہ اب آجاؤ اس بات کی طرف کہ ڈار صاحب یہ نے بیان دیا کیوں ہے؟ تو اس کا جواب بہت آسان ہے۔ اصل میں ڈار صاحب اور انکے سمدھیوں نے یہ بیان آئی ایم ایف اور دیگر قرض دینے والے اداروں سے بڑا قرض لینے کی راہ ہموار کرنے کے لئے دیا ہے اور ن لیگ یہ بڑا قرضہ پی ڈی ایم حکومت کے نام پر لینا چاہتی ہے تاکہ بعد میں کوئی ن لیگ کو اس کا ذمہ دار نہ ٹھہرائے۔ دراصل ن لیگ کا یہ سارا منصوبہ پاکستان میں اپنا سیاسی مستقبل اور لندن میں مقیم اپنے بچوں کا معاشی مستقبل محفوظ بنانے کے لیے ہے۔ ”آیا خیال شریف میں“ کہنے کے ساتھ مرزا صاحب نے ہمیں چائے اور سموسے چٹنی کے ساتھ لانے کا آرڈر دے دیا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.