vni.global
Viral News International

حکومت50روپے بجلی بل کی طرح مزید250روپے گیس بل میں بھی شامل کروائے۔

کالم : محمد ذوالفقار پشاور

ہمارے محترم سینیٹر عرفان صدیقی صاحب نواز شریف صاحب کے سایہ عاطفیت میں آنے سے پہلے صحافی تھے اور پاکستان کے ایک بڑے اخبار میں کالم بھی لکھتے تھے۔ اُن کے کالم کی پسندیدگی کی ایک وجہ اُن کی آسان اردو اور دوسری وجہ اُن کی صاف گوئی تھی۔ وہ کھل کر اچھے کام کی تعریف اور غلط کام پر تنقید کرنیو الے شخص تھے۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ صدیقی صاحب جناب نواز شریف صاحب کے مریدین اور مصاحبین کی صف میں شامل ہو گئے اور جناب نواز شریف صاحب کی پڑھ کر کی جانی والی تقریروں میں اُن کی تحریر کی جھلک صاف دکھائی دینے لگی۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس ایسے قابل لوگوں کو نوازنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک وہ انہیں اپنا معاون خصوصی بنا لیتے ہیں اور دوسرا انہیں سینٹ کا ممبر بنوا دیتے ہیں۔ ایسا ہی صدیقی صاحب کے ساتھ بھی ہوا اور وہ سینیٹر بنا دیے گئے۔ سینیٹر بن کر صدیقی صاحب نے ہر مشکل وقت میں حق نمک تو ادا کیا۔ لیکن تہذیب اور اخلاق کا دامن ہمیشہ تھامے رہے۔
آج کل صدیقی صاحب سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے ممبر ہیں اور باقی پاکستانیوں کی طرح ریڈیو پاکستان کی معاشی بد حالی سے وہ بھی پریشان تھے۔ ایک وقت تھا کہ یہ ادارہ اپنے جملہ اخراجات اپنے کمرشل پروگراموں سے پورا کر لیتا تھا۔ لیکن پھر جیسے ہی ملک میں قومی اداروں کی تباہی کی لہر آئی تو یہ ادارہ بھی پی آئی اے، پاکستان اسٹیل مل، پاکستان ریلوے اور پی ٹی وی کی طرح معاشی ذبوں حالی کا شکار ہو گیا اور حکومتوں پر بوجھ بن گیا۔ پی آئی اے، پاکستان اسٹیل مل اور پاکستان ریلوے تو پورس کے ہاتھیوں کی طرح قومی خزانے اور قومی معیشت کا بیڑا غرق کر رہے ہیں اور نا قابل برداشت بوجھ بنے ہوئے ہیں، لیکن نہ جانے کیوں ہمارا کوئی بھی حکمران یہ بوجھ اپنے سر سے اتارنے پر رضا مند نہیں ہوتا۔ جو کوئی مشکل کام نہیں۔ ان اداروں کا بوجھ سر سے اتارنے کا آسان حل انکی نجکاری ہے۔ اِس نجکاری سے پاکستانی خزانے کو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو کم ازم کم وہ نقصان سے تو بچ جائے گا جو ہر سال ہمارا قومی خزانہ برداشت کر رہا ہے اور قوم بھی تاوان سے بچ جائے گی۔ اگر کوئی عقل کا اندھا آج بھی اِس خام خیالی کا شکار ہے کہ یہ ادارے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں گے تو اُنکی عقلوں پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ اندھی عقلیں ہی ملک کو آج دیوالیہ ہونے کے قریب لانے کی ذمہ دار ہیں۔
ہماری قومی سیاست کا ایک اہم کردارجناب شیخ رشید صاحب ہیں۔ وہ اپنی ایک سیٹ کی سیاست سے جس طرح ہر حکومت میں ایک اہم وزارت لے لیتے ہیں۔ یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ مشرف صاحب کے دور میں جب وہ وزیر اطلاعات تھے تو انہوں نے پی ٹی وی کو پالنے کی ذمہ داری ملک کے ہر بجلی کے بل ادا کرنے والے شخص پر 35روپے کا اضافی بوجھ ڈال کر ڈال دی تھی اور پی ٹی وی کو غمِ روزگار سے آزاد کر دیا تھا۔ اب عوام کی کمائی ہے اور پی ٹی وی کی بادشاہی ہے۔ جو کھاتا مال عوام کا ہے اور گُن ہر اُس حکومت کے گاتا ہے جو برسرِاقتدار ہوتی ہے۔ سینیٹر صدیقی صاحب نے ریڈیو پاکستان کو مالی مشکلات سے نکالنے کے لئے شیخ صاحب کے پرانے نسخے کو استعمال کیا ہے اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی سے بجلی کے بلوں میں مزید15روپے ریڈیو پاکستان کی باحالی کے نام پر شامل کروانے کا بل منظور کروا لیا ہے۔ اب بجلی کے بل ادا کرنے والے شہری پی ٹی وی کی طرح ریڈیو پاکستان کو بھی پالیں گے۔ ہمارے اُستاد محترم کا کہنا ہے کہ
جو غریب عوام اپنے بچے نہیں پال سکتی ہے وہ قوم کے اتنے اداروں کو کیسے پالے گی۔ اپنے بچوں کے معاملے میں تو وہ ناکامی کی صورت میں بچوں سمیت خود کشی کر لیتی ہے۔ اب اداروں سمیت کیسے خود کشی کرے گی اور دوسرا ریڈیو پاکستان کو پالنے کا ثواب صدیقی صاحب کے ساتھ شیخ رشید صاحب کو بھی ملے گا کیونکہ اِس نیک کام کا آغاز تو شیخ صاحب نے ہی کیا تھا۔ اگر مولانا اشرفی صاحب اس مسئلے پر قوم کی راہنمائی فرمادیں تو اُن کی مہربانی ہو گی۔
یہاں قوم اِس بات پر غور کرے کہ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے وہ مسائل جو حکومتیں حل نہ کر سکیں انہیں کس طرح شیخ رشید صاحب اور عرفان صدیقی صاحب نے چٹکیوں میں حل کر دیا۔ عمران خان صاحب، شیخ رشید صاحب اور نواز شریف صاحب صدیقی صاحب کو یونہی تو سر پر نہیں بٹھاتے۔ سچ ہے ہیرے کی قدر جوہری ہی جانتا ہے۔ صدیقی صاحب اور شیخ صاحب نے صرف50روپے بجلی کے بلوں میں شامل کروا کے جس طرح قوم کے دو اہم اداروں کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا ہے قابل تحسین ہے۔ یوں سینیٹر نور عالم صاحب اب250روپے گیس بل پر بڑھا کر اُن میں سے150روپے وزیر اعظم صاحب کے صوابدیدی فنڈ اور100روپے پارلیمینٹرین فنڈ میں شامل کروا کے پارلیمنٹ کے تمام ممبران کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈ میں اضافے سے وزیراعظم کو کسی مالی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور پارلیمینٹرین فنڈز میں اضافے سے پارلیمنٹ کے ممبران کو بھی کوئی مشکل درپیش ہوئی تو اُس کا حل نکالنا بھی آسان ہو گا۔ آپ یقین کریں 250روپے کا یہ اضافہ بھی عوام کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائے گا۔ جو عوام ہزاروں روپے مہینے کے لُٹا کر خاموش ہے، اِن 250روپوں پر بھی خاموش رہے گی۔ ہمارے قومی اسمبلی کے ممبران تو آج کل ٹھنڈے ٹھار اسمبلی حال میں خواجہ صاحب کی تقریروں پر سر دُھن رہے ہیں یا سو کر وقت گزار رہے ہیں یاحکومتی لیڈر بچاؤ بل پاس کروا رہے ہیں لیکن سینٹ کے ممبران اور قائمہ کمیٹیاں کچھ کام کرتی نظر آتی ہیں۔ محترم صدیقی صاحب کا ریڈیو پاکستان یہ قابل قدر اقدام دیکھ کر پاکستانیوں کی صدیقی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ چاہیں تو پی آئی اے کو اُن زرعی زمینداروں کی ذمہ دارای بنوا سکتے ہیں جو1800ارب روپے سالانہ کماتے ہیں اور صرف4ارب ٹیکس ادا کرتے ہیں اسی طرح پاکستان ریلوے اُن تاجروں کی ذمہ داری بنا سکتے ہیں جو حکومت سے اربوں روپے صرف سبسڈیز کی شکل میں لیتے ہی اور اربوں کماتے ہیں۔ پاکستان کی اسٹیل کو اُن سیاستدانوں کی ذمہ داری قرار دے سکتے ہیں۔ جن کی اربوں روپے کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں۔ ایسا کرنے سے یہ ادارے بھی پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی طرح فکر ِروزگار سے آزاد ہو جائیں گے اور عوام کا گلہ بھی ختم ہو جائے گا کہ چُھری ان کے گلے پر ہی کیوں پھرتی ہے۔ باقی جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.