vni.global
Viral News International

کیا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بے نظیر صاحبہ کی ذاتی دولت سے شروع کیا گیا تھا؟

کالم: محمد ذوالفقارپشاوری

محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ پاکستانی سیاسی تاریخ کا ایک اہم حصہ تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی یہ بیٹی اپنے باپ کی طرح نڈر اور بہادر تھیں اور بدقسمتی سے انکا انجام بھی اُنکے والد کے انجام سے ملتا جلتا ہی ہوا۔ اُنکی سیاسی زندگی میں بھی آپکو اُنکی کامیابیوں کے ساتھ بہت سی ناکامیاں بھی نظر آئیں گی۔ محترمہ اپنی انتھک جدوجہد سے اقتدار کے ایوانوں تک تو پہنچ گئیں لیکن اپنے باپ کے قاتلوں کو نا ڈھونڈ سکیں۔ اُن کے عہدِ اقتدار میں ہی ان کا چھوٹا بھائی مرتضیٰ بھٹو سندھ پولیس کے ہاتھوں مارا گیا اور وہ اپنے بھائی کے قاتلوں کو بھی نہ پکڑوا سکیں۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اُنکی شہادت کے بعد اُنکی پارٹی اور انکے شوہر حکومت میں ہوتے ہوئے عوام کے ٹیکسوں کے کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بے نظیر صاحبہ کے قاتل تلاش نہ کر سکے اور انکا قتل آج بھی ایک اندھا قتل ہے۔
محترمہ کے عہدِ اقتدار میں اُن پر کرپشن کے الزامات بھی لگائے گئے۔ جن میں سوئس اکاؤنٹ، کوٹیکناکِک بیک، سرئے محل اور اُنکے شوہر کا مسٹر 10 پرسنٹ ہونا کافی مشہور ہوئے۔ ان تمام الزامات میں سے صرف سر ئے محل ایک حقیقت بن کر سامنے آیا۔ جس کی ملکیت کا اعتراف زرداری صاحب نے خود کیا اور اُسے بیچ کر اُس کی رقم اپنی جیب میں ڈالی۔ سرئے محل ہی وہ حقیقت ہے جو ثابت کرتا ہے کہ محترمہ کے دور میں کسی نا کسی لیول پر کر پشن ضرور ہوئی۔ صرف بمبینو سینما کی کمائی سے زرداری صاحب سرئے محل نہیں خرید سکتے تھے۔ سرئے محل کی طرح شریف خاندان کے لندن والے فلیٹس بھی انکی کرپشن کا واضح ثبوت ہیں۔ لوہے کی بھٹیوں کی کمائی سے یہ فلیٹ خریدنا ممکن نظر نہیں آتا اور قطری انکے مامے نہیں تھے۔
محترمہ کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو زرداری صاحب ملک کے صدر بن گئے۔ اُس حکومت نے عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے اربوں روپے کا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں محترمہ کا ذاتی یا موروثی یا انکی پارٹی کا ایک پیسہ بھی شامل نہیں تھا۔ زرداری صاحب نے اپنی بیوی کے ایصال ثواب کیلئے بھی اسمیں کچھ رقم نہیں ڈالی لیکن عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے شروع کیے جانے والے اس پروگرام پر بینظیر صاحبہ کی تختی لگوادی اور حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ کو حقیقت بنا دیا۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے عوام کو تو دھکوں اور ذلت کے سوا کچھ نہیں ملا البتہ اس پروگرام کی انچارج فرزانہ راجہ صاحبہ جیسے لوگوں نے خوب جیبیں بھریں اور دوسرے ملکوں میں جا کر آباد ہوگئے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اسکی بیٹی کے مقبرے سے آج بھی پیپلز پارٹی سیاسی فیض اٹھا رہی ہے اور اس مقبرے کے مجاور بھی مقبرے کی وجہ سے عیش کر رہے ہیں۔
پاکستان میں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بنائے گئے پراجیکٹ اور اُن سے شروع کیے گئے پروگراموں پر صرف پیپلز پارٹی نے ہی اپنے خاندان کی تختیاں نہیں لگوائیں یہ نیک کام ہر سیاسی خانوادہ اپنے اپنے دور ِاقتدار میں کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا۔ سب کو تو چھوڑیں پنجاب کے نووارِد سابق وزیر اعلیٰ سائیں بزدار نے بھی اپنے علاقے میں بنائے گئے سرکاری ہسپتال پر اپنے والد کے نام کی تختی لگوا دی تھی۔ عمران خان صاحب سائیں بُزدار کا تعارف ایک غریب وزیر اعلیٰ کے طور پر کرایا کرتے تھے لیکن رخصت ہوتے وقت وہ خان صاحب کی مہربانی سے کروڑ پتی بن چکے تھے پھر بھی نہ جانے لوگ خان صاحب پر یہ الزام کیوں لگاتے ہیں کہ انہوں نے غریبوں کے لئے کچھ نہیں کیا۔
پاکستان کی غریب عوام چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کرتی ہے کہ وہ اس معاملے پر بھی سو موٹو لیں کہ کوئی حکمران خانوادہ عوام کے ٹیکس سے بنائے گئے پراجیکٹ یا پروگرامز پر اپنے خاندان کے لوگوں کی تختی نہ لگائے۔ پرائے مکان پر اپنے نام کی تختی لگانے کی اجازت تو کوئی قانون نہیں دیتا۔ لیکن یہاں حکمران جس کے مکان پر چاہیں اپنا نام لکھوا دیتے ہیں جبکہ یہ کرپشن اور ڈاکہ زنی ہے۔ قبضہ گروپ کسی بھی شکل میں ہو مجرم ہوتا ہے۔ اصولاً ان پر بھی پرچہ کٹنا چاہیے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.