vni.global
Viral News International

ہمارے حکمرانوں کو کرپشن پر اکسانے کے ذمہ دار وزیر اعظم لیاقت علی خان بھی تھے۔

کالم: محمد ذوالفقار پشاوری

دنیا میں ہر کام کے پیچھے کوئی نا کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ اس اصول کے تحت اگر آپ وطن عزیز میں ہونے والی کرپشن کی وجہ جاننا چاہیں تویہ تلاش آپ کو پاکستان کے پہلے شہید وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے گھر تک لے جائے گی۔ لیاقت علی خان قائد اعظم کے انتہائی قریبی اور بااعتماد ساتھی تھے۔ قائد اعظم نے انکا بطور وزیراعظم انتخاب خود کیا تھا۔ انتہائی قابل اور پڑھے لکھے انسان تھے اور خاندانی لحاظ سے ہندوستان کی ریاست کرنال کے نواب تھے۔ لیکن بحیثیت وزیر اعظم پاکستان جب انہیں پنڈی میں گولی مار کر شہید کیا گیا تو وہ پھٹی ہوئی بنیان پہنے ہوئے تھے۔ اُن کے بیوی بچوں کے پاس اپنا گھر تک نہیں تھا اور اُن کے بینک اکاؤنٹ میں پڑے چند ہزار روپے اُن کا کُل مالی اثاثہ تھے۔ ابھی چند سال قبل اُسی وزیر اعظم کی بہو اُس وزیراعظم کے بیٹے کے علاج کے لئے پاکستان کے ارب پتی حکمرانوں سے درخواستیں کرتی نظر آئی اس کے باجود اس کا شوہر اور پہلے وزیر اعظم کا بیٹا سرکاری ہسپتالوں میں ہی علاج کرواتے ہوئے فوت ہو گیا، اُسے سرکاری خرچ پر لندن یا دبئی جا کر علاج کروانے کی سعادت نصیب نہ ہوئی۔ جبکہ آج کے حکمرانوں کو تو چھوڑیں ایک عام سرکاری افسر بھی اپنا اور اپنے بال بچوں کا علاج سرکاری خرچ پر بیرون ملک سے کرواتا ہے۔ کہتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے خاندانی حالات کو دیکھ کر ہی اُن کے بعد آنے والے حکمرانوں نے اپنے خاندانوں کو مالی تحفظ دینے کے لئے ”آل بچاؤ، مال بچاؤ“ پروگرام کی بنیاد رکھی تھی، تاکہ انہیں یا اُن کے بچوں کو بعد میں علاج کے لئے کسی حکومت کو درخواستیں نا دینی پڑیں۔ اب تو پی پی پی کی سابق سپیکر قومی اسمبلی محترمہ فہمیدہ مرزا اورہمارے موجودہ چئیرمین سینٹ جناب سنجرانی صاحب اپنے اگلوں پچھلوں کے لئے ایڈوانس تا حیات مراعات کا پیکج منظور کروا تے ہیں اور ممکن ہے جلد ہی وہ بعد از مرگ پچاس سالہ مراعات کا بل بھی پاس کروا لیں اور اپنے مقبروں کے لئے دس دس کنال کے اسلام آباد میں ایسے پلاٹ بھی حاصل کر لیں جن پر پلازے بنانے کی انکی اولادوں پر کوئی پابندی نہ ہو۔
وطن عزیز میں باقاعدہ سرکاری طور پر مال بناؤ اسکیم کا آغازمحترم جنرل ضیاء الحق صاحب کے دور میں ہوا۔ جنرل صاحب نے مجلس شوریٰ کے ممبروں میں کروڑوں روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر بانٹے۔ سرکاری خرچے پر مفت حج اور عمروں کی شروعات کر کے عوام کے لئے مستقل ثواب دارین کا انتقام لیا۔ اُن کے بعد اُن کے منہ بولے بیٹے جناب نواز شریف صاحب نے مال بناؤ اسکیم کو مزید بہتر بنایا، ضیاء دور میں سیاستدان بنائے جانے کے وقت وہ لاکھوں پتی تھی، سیاست دان بنے تو اربوں پتی ہوگئے۔ محترم شیخ رشید صاحب کا نواز شریف صاحب کے بارے میں فرمانا ہے کہ زرداری صاحب کو آپ سیاست کا پی ایچ ڈی تو کہہ سکتے ہیں لیکن مال چھپاؤ پروگرام میں وہ نواز شریف صاحب کے شاگرد ہی رہیں گے۔ زرداری صاحب تو ٹین پرسنٹ پر کام کرنے والے شخص تھے۔ مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے ہی شہرت پائی، نواز شریف صاحب تو پورا خزانہ کھا کر بھی ڈکار نا مارنے والی شخصیت ہیں۔ وہ لوٹے ہوئے مال کوٹھکانے لگانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اِس مال بچاؤ پروگرام میں انہوں نے اپنی اولاد کے علاوہ بہت سے لائق اور ہونہار شاگرد بھی متعارف کروائے ہیں۔ جن میں سے بہت سے بعد میں تبدیلی سرکار کا حصہ بنے اور وہاں بھی بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگاتے رہے۔ وہاں بھی انہوں نے طریقہ واردات پرانا ہی رکھا یعنی بمپر کراپ کے بہانے گندم، آٹا، چینی دوسرے ملکوں کو سستے داموں بیچنا اور پھر دوبارہ وہاں سے مہنگے داموں خریدنا اور سرکاری زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا بنا کر بیچنا۔ ان صاف ستھرے کاموں سے کروڑوں اربوں کمانا اور جیبیں بھرنا۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب دونوں نے اپنا مال بناؤ پروگرام پاکستان کے سابق حکمرانوں اور انکی اولادوں کا برا انجام دیکھ کر اور اپنا اور اپنی اولادوں کا مستقبل محفوظ رکھنے کے لئے شروع کیا تھا۔ آپ پاکستان کے سابقہ حکمرانوں کی تاریخ نکال کر دیکھ لیں آپ کو اس میں ایوب خان صاحب، بھٹو صاحب اور ضیاء الحق صاحب کی اولادوں کے سوا کسی اور سابق حکمران کی اولاد کا ذکر بہت کم ملے گا۔ یہ لوگ اس وقت کہاں ہیں اور کسی حالت میں ہیں شاید ہی کوئی جانتا ہو اور یہی وہ وجہ ہے جس کے بارے میں جان کر نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب نے اپنے اپنے ادوار میں اربوں روپوں کی بیرون ملک جائیدادیں بنائیں تاکہ مصیبت کے دِنوں میں انہیں یا اُن کے بچوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ بعد میں نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب کی یہی دور اندیشی لندن اور دبئی میں اُن کے کام آتی رہی۔ مصیبت کے دنوں میں وہ جب بھی پاکستان سے بھاگے اُنکی جائیدادیں اُنکی پناہ گاہیں بنیں۔ نواز شریف تو آج بھی گذشتہ چار سالوں سے اپنے بچوں کے نام پر خریدی گئی اقامت گاہ میں رہ کر علاج کے ساتھ آرام اور سیاست دونوں کر رہے ہیں۔
نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب کی طرح عمران خان صاحب کے اقتدار کا دورانیہ زیادہ طویل نہیں رہا لیکن اُنکی حکومت کے خاتمے کے بعد اُس دور کے مال بناؤ واقعات بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ جن میں اُنکے رفقاکار توشامل تھے ہی لیکن خان صاحب کا نامہ اعمال بھی سامنے آچکا ہے۔ القادر ٹرسٹ کیس اور توشہ خانہ کیس اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اب ان میں سے کیا برآمد ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن لگتا ہے کہ خان صاحب نے بھی یہ سب کچھ ماضی کے حکمرانوں کے برے حالات دیکھ کر اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے کیا ہو گا۔ ورنہ خان صاحب کو تو پہلے ثاقب نثار صاحب (سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ) صادق و امین کا سرٹیفکیٹ دے چکے تھے حالانکہ اب ثاقب نثار صاحب فرما رہے ہیں کہ میں نے انہیں کُلی نہیں جزوی صادق و امین کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ہم تو عام پاکستانیوں اور نواب رئیسانی کا فارمولہ جانتے ہیں کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا نقلی۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.