vni.global
Viral News International

مالدار مسلم ممالک ہمارے حکمرانوں کو زکوۃ ہی دیدیں

کالم :محمد ذوالفقارپشاوری

اسوقت دنیا میں 57مسلم ممالک ہیں اچھی خاصی تعداد مالدار ترین ممالک کی بھی ہے جن میں تیل پیدا کرنے والے مسلمان عرب ممالک سرفہرست ہیں ۔یہ دولت انہوں نے اپنے زور بازو سے نہیں کمائی 1973 میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں تیل کی قیمتیں بڑھنے سے مالدار ترین ممالک بن گئے ہیں  یعنی کبڑے کو لات راس آگئی تھی ۔ شروع میں ان ممالک کے شیوخ نے اپنی عیاشیوں سے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی بعد میں دنیا بھر کے عیاش سیاحوں کیلئے اپنے ملکوں میں سہولتیں پیدا کرکے کمائی کے ذرائع بھی پیدا کرلئے ۔ ان ملکوں کے حکمرانوں کو ایک بات کی داد نہ دینا بخل ہوگا کہ انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں لاء اینڈ آرڈر کا بہترین نظام رائج کر رکھا ہے ۔جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں دوسرا یہ کہ یہ ممالک دشمنی کی بجائے دوستی کی پالیسی پر چل رہے ہیں ۔آج اسرائیل بھی ان کا دوست ملک ہے اسی وجہ سے یہ سرمایہ کاری میں دن دگنی رات چکنی ترقی کررہے ہیں ۔

مالدار مسلم ممالک کے بعد دوسرے نمبر پر وہ مسلم ممالک آتے ہیں جو اپنا کماتے اور اپنا کھاتے ہیں یہ اگر امیر نہیں تو غریب بھی نہیں ان ممالک کے بعد مسلمان ممالک کی وہ فہرست ہے جنکا شمار غریب اور غریب ترین ملکوں میں آتا ہے ۔بدقسمتی سے پاکستان  کا شمار بھی ان غریب ممالک میں ہوتا ہے جو ملک چلانے کیلئے قرض کی خاطر ہر دوازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہے لیکن اسے کوئی قرض دینے کیلئے بھی تیار نہیں ۔آزادی کے وقت ہماری یہ حالت نہیں تھی شروع کی چند دھائیاں پاکستانیوں نے ایک خود دار قوم کی حیثیت سے گزاریں۔جنرل ایوب خان نے اپنے مارشل لاء دور حکومت میں اس ملک کی معاشی بنیادوں کو کافی مضبوط کیا ۔ بھٹو صاحب نے ہمیں ایٹمی قوت بنانے کیلئے اپنی جان کی بھی پروہ نہیں کیا۔ لیکن بھٹو صاحب کے بعد آنے والی حکومتوں کی غلط پالیسیوں نے ہمیں ترقی کی راہ سے ہٹا کر تنزلی کی راہ پر ڈال دیا اور آج اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہم تباہی کے دھانے پر پہنچ چکے ہیں۔

آج ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں سرعام ہورہی ہیں۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں ۔کوئی ملک ہمیں ایک ڈالر قرض دینے کیلئے تیار نہیں صرف ایک آئی ایم ایف وہ واحدعالمی مالیاتی ادارہ ہے جو ہماری ہڈیاں اور چمڑا گروی رکھواکر ہمیں اتنے ڈالر قرض دیتا ہے کہ ہماری سانس کی ڈوری نہ ٹوٹے ۔ اس وقت ساری قوم کے سامنے ایک ہی سوال ہے کہ آخر ہم کب تک عوام کو گروی رکھ کر قرض کی رقم سے اس ملک اور اس کے حکمرانوں کو چلاتے رہیں گے ۔ ایک مزے کی بات یہ ہے کہ اس دیوالیہ ہونے کے قریب ملک کے تقریبا تمام حکمران ارب پتی ہیں ۔ دینا کا کون سا ترقی یافتہ ملک ہے جہاں ان کی اولادیں اور جائیدادیں نہیں لیکن اپنے شوق حکمرانی وہ یہاں ہی پورا کرتے ہیں کیونکہ اس ملک کی جزباتی لوگوں کو جھوٹے خواب دکھا کر بیوقوف بنانا ان لوگوں کیلئے چنداں مشکل نہیں ۔جھوٹے خوابوں سے عوام کو بیوقوف بنانے والے حکمرانوں کی بدولت آج ملک کی یہ حالت ہے کہ آج ہمیں آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی ملک ایک روپیہ قرض دینے کیلئے تیار نہیں اور آئی ایم  ایف بھی یہ قرض 22 کروڑ عوام کو گروی رکھ کر دیتی ہے جبکہ یہاں کی عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں مررہی ہے ۔آپ نے کبھی آئی ایم ایف کویہ کہتے ہوئے نہیں سنا ہوگا کہ حکومت وقت اپنے اخراجات کم کرے یا جاگیرداروں پر زرعی ٹیکس لگایا جائے۔ وہ ہمیشہ حکومت سے پٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کا کہتے ہیں تاکہ یہ ملک اور عوام کبھی بھی غربت کی دلدل سے نہ نکل سکے ۔ آئی ایم ایف کا نشانہ ہمیشہ غریب عوام ہوتی ہے ناکہ حکمران اور جاگیردار۔

ملک کی موجودہ صورتحال سے نجات حاصل کرنے کا ایک حل ہمارے ایک اکانومسٹ دوست کی نظر میں یہ ہے کہ ہمارے حکمران ایک مستقل وزارت کشکول بنائے  جو دنیا بھر میں قرض لینے کی بجائے مسلمان ملکوں سے زکوۃ اکھٹی کرے۔ہمارے دوست کے بقول اگر یہ وزارت صرف برونائی، سعودی عرب ، یو اے ای ، قطر اور بحرین سے ہی زکوۃ لینے میں کامیاب ہوجائے تو ہم ایک سال میں ہی ملک کا چوتھائی قرض بآسانی اتارلیں گے۔ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی بھی اپنی زکوۃ اسی وزارت کو دے سکتے ہیں ۔ اور اگر یہ وزارت چاہے تو اہل کتاب مذاہب سے تعلق رکھنے والے ملکوں سے بھی چیریٹی اگھٹا کرسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ ملک کو بچانے کی ایک صورت  ملک کو لیز پر دینے کی بھی ہوسکتی ہے ۔ پاکستان کو لیز پر دینے سے ملک کم از کم  بکنے سے تو بچ جائیگا۔ باقی جو چاھے ہمارے حکمرانوں کا حسن کرشمہ ساز کرے ۔ ہمارا  کام تو صرف اپنے حکمرانوں کو خیردید سمجھانا ہے ۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.