vni.global
Viral News International

پناہ گزینوں کی یورپ داخلے کی کوششیں: ترکی اپنی سرحدوں پر سینکڑوں کلومیٹر طویل دیواریں کیوں تعمیر کر رہا ہے؟

ترکی کی جانب سے شام اور ایران کی سرحدوں پر سینکڑوں کلومیٹر لمبی دیواریں تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔

یونان پہلے ہی ترکی کی سرحد کے ساتھ ایسی دیوار تعمیر کر چکا ہے جس پر جدید سکیورٹی آلات نصب ہیں۔

ایسی دیواروں کی تعمیر سے حالیہ برسوں میں تارکین وطن کے یورپ داخل ہونے کے حوالے سے مختلف اقوام کے رویوں میں سختی کے بھی اشارے ملتے ہیں۔

ترکی کی جانب سے دیوار کی تعمیر میں ترک حکومت کی ’سکیورٹی فرسٹ‘ کی پالیسی جھلکتی ہے، وہ پالیسی جس کے تحت وہ اپنی سرحدوں سے باہر جا کر کرد ملیشیا کے خلاف کارروائیاں کرتا ہے۔

شام، ایران کی سرحدی دیواریں

ترکی کے وزیر داخلہ سلیمان سولو نے نومبر 2020 میں کہا تھا شام کی سرحد کے ساتھ 911 کلومیٹر لمبی دیوار پر کام مکمل ہو چکا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اس دیوار پر کام سنہ 2016 میں شروع ہوا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس دیوار کی تعمیر کا مقصد سکیورٹی کو بہتر بنانا، سمگلنگ اور غیر قانونی تارکین وطن کو روکنا ہے۔

شام میں بدامنی پھیلنے کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے ترکی کی جانب ہجرت کی جس کے بعد اس دیوار پر کام شروع کیا گیا تھا۔

حکومت کے حامی اخبار صبا کے مطابق یہ دیوار دو میٹر چوڑی اور تین میٹر اونچی ہے اور سات ٹن کے کنکریٹ بلاکس کے اوپر خاردار تار نصب کی گئی ہے۔

دیوار کے ہر 300 میٹر کے بعد ایک واچ ٹاور ہے۔

انادولو نیوز ایجنسی کے مطابق اس دیوار پر تھرمل کیمرے، نگرانی کے کلوز اپ کیمرے، نگرانی کے لیے ریڈار، ریمورٹ کنٹرول اسلحہ سسٹم اور لائن لینتھ ایمجنگ سسٹم کے علاوہ اکوسٹک سینسر بھی نصب ہیں۔

ترکی کی یہ سرحدی دیوار میکسیکو بارڈر پر امریکہ کی جانب سے بنائی جانے والی دیوار اور دیوار چین کے بعد دنیا کی سب سے طویل دیوار ہے۔

ترکی ایران کے ساتھ اپنی 560 کلومیٹر لمبی سرحد پر 200 کلومیٹر لمبی دیوار بھی تعمیر کر رہا ہے۔

ترکی کے ذرائع ابلاغ میں کہا جا رہا ہے کالعدم کردش ورکرز پارٹی (پی کے کے)، سمگلنگ اور غیر قانونی نقل مکانی کو روکنے کے لیے یہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

اب کیوں؟

شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے ابتدا میں ترکی نے شامی شہریوں کے لیے اپنے سرحدوں کو کھلا رکھا تھا جس کے نتیجے میں لاکھوں شامی پناہ گزین ترکی میں داخل ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں اب بھی 36 لاکھ شامی پناہ گزین موجود ہیں جو دنیا کے کسی ملک میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

لیکن اب ترکی میں شامی پناہ گزینوں کے بارے میں رویے سخت ہو چکے ہیں اور ترکی کسی کو سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

حکام کے مطابق سنہ 2017 کے بعد شامی مہاجرین کے حوالے سے صورتحال میں استحکام آیا ہے۔

ترکی نے سنہ 2020 میں اس وقت بھی اپنی سرحد کو مکمل طور پر بند رکھا تھا جب شام اور روس نے ادلب میں بمباری کی جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد نقل مکانی کر کے ترکی کے بارڈر کی جانب آئے تھے۔

صدر طیب اردوغان نے کہا ہے کہ ترکی مزید پناہ گزینوں کا بوجھ نہیں سنبھالے گا۔

انسانی حقوق کے گروپ ترکی پر سرحد سے لوگوں کو پیچھے دھکیلنے اور انھیں ہلاک کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

سیریئن آبزویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ سرحدی گارڈز نے سنہ 2011 کے بعد سے مبینہ طور 465 لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کیا ہے۔

ایران کی سرحد پر دیوار کی تعمیر بھی وسطی ایشیا سے تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکنے کی وجہ سے شروع کی گئی ہے۔

افغانستان میں بدامنی سے بھاگنے والے ایران کے راستے ترکی میں داخل ہونے کے لیے اسی راستے کو استعمال کرتے ہیں۔

انقرہ میں قائم ازائلم اینڈ مائیگریشن ریسرچ سینٹر (آئی جی اے ایم ) کے سربراہ متین کورا بیتر نے بی بی بی مانیٹرنگ کو بتایا کہ برسوں تک ترکی میں داخل ہونے کا یہ واحد راستہ تھا۔

سرکاری براڈ کاسٹر ٹی آر ٹی نے ترکش اہلکاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران کی سرحد پر دیوار کی تعمیر سے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے اور سمگلنگ کے واقعات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔

البتہ متین کورابیتر نے بتایا کہ جہاں ابھی تک دیوار تعمیر نہیں ہوئی ہے وہاں سے پناہ گزین اب بھی سرحد کو عبور کر کے ترکی میں داخل ہو رہے ہیں۔

کرد مخالف اقدام؟

کچھ کردوں کا کہنا ہے کہ ترکی کی جانب سے سرحدوں پر دیواروں کی تعمیر کا مقصد صرف کردوں کے اتحاد کو روکنا ہے۔

کرد باشندے ترکی، شام، ایران اور عراق میں بستے ہیں۔

کرد نیشنل موومنٹ کا مقصد کردوں کو تقسیم کرنے والی سرحدوں کو ختم کرنا ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد بنائی گئی تھیں۔

کردوں کے حامی انگلش جریدے روجوا نے سنہ 2019 میں خبردار کیا تھا شام کی دیوار کرد معاشروں کو بانٹ دے گی۔

استنبول کی ابن ہلدون یونیورسٹی کے رمضان آراس نے شام کے ساتھ دیوار کو ’تکلیف دہ‘ تعمیرات قرار دیا تھا۔ انھوں نے اپنی کتاب ’دی وال‘ میں لکھا کہ ترکی کی سکیورٹی دیوار کا مقصد دونوں جانب بسنے والے کردوں کے سماجی، معاشی اور سیاسی تعلقات کو ختم کرنا ہے۔‘

صدر طیب اردوغان نے سنہ 2017 میں اس دیوار کو ’انسداد دہشتگردی اقدام‘ قرار دیا تھا۔

صدر اردوغان نے کہا تھا کہ ’ہم بہت مضبوط دیواریں تعمیر کر رہے ہیں تاکہ دہشتگردوں کو اپنے ملک میں آنے، جانے اور اسلحے کو منتقل کرنے سے روکا جا سکے۔‘

صدر اردوغان نے کہا کہ ’جہاں مناسب ہوا ہم یہی کچھ ایران اور عراق کی سرحد کے ساتھ بھی کریں گے۔‘

 

یونان کی دیوار

یونان نے بھی ترکی کی سرحد کے ساتھ 200 کلومیٹر لمبی دیوار تعمیر کی ہے جس پر انتہائی جدید آلات نصب کیے گئے ہیں۔

اس دیوار پر بھی دور تک دیکھنے کی صلاحیت والے کیمرے، ساونڈ کینن اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے چلنے والے سینسر نصب ہیں۔

یونان نے ترکی کی سرحد سے تارکین وطن کی آمد کو روکنے کے لیے دیوار تعمیر کی ہے۔

ترکی نے فروری 2020 میں اپنی سرحد کو ہزاروں تارکین وطن کے لیے کھول دیا تھا لیکن یونان نے پھر بھی اپنی سرحد کو مکمل طور پر بند رکھا تھا۔

انسانی حقوق کے گروپ یونان کے سرحدی محافظوں پر تارکین کو پیچھے دھکیلنے اور ان پر فائرنگ کرنے اور انھیں ہلاک کرنے کے الزامات عائد کرتے ہیں۔

یونان میں دائیں بازو کے لوگوں نے ترکی کی سرحد کے ساتھ دیوار کی تعمیر کر سراہا ہے۔ البتہ ترکی نے یونان کی دیوار کو ’دیوار شرمندگی‘ قرار دیا ہے۔ ترکی نے یاد دلایا کہ دیوار کی تعمیر میں یورپی یونین نے یونان کی مدد کی ہے۔

یورپی یونین نے حالیہ برسوں میں تارکین وطن کے یورپ میں داخلے کو روکنے کے لیے یورپی یونین بارڈر ایجنسی فرنٹ ایکس کے بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔

یورپی یونین نے تارکین وطن کے یورپ میں داخلے کو روکنے کے لیے مارچ 2016 میں ترکی کے ساتھ ایسا متنازع معاہدہ کیا تھا جس کے تحت وہ تارکین وطن کو یورپ میں داخل ہونے سے روکنے کے عوض ترکی کو رقم کی ادائیگی کرتا تھا۔

افغان مہاجرین، ایک نئی حقیقت

ترکی کی دیوار ایسے وقت میں تیار ہو رہی ہیں جب ایسی رپورٹس آ رہی ہیں کہ افغانستان سے سینکڑوں مہاجرین ایران کے راستے ترکی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے اعلان کی وجہ سے افغانستان میں خانہ جنگی کےخطرات بڑھ گئے ہیں۔

متین کوربیٹر نے کہا کہ افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے پناہ گزینوں کے ترکی میں داخلے کی کوششوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

افغانستان سے لوگوں کی نقل مکانی کی خبروں کے بعد ترکی میں ایسے ہیش ٹیگ#SinirlariKapat چل رہے جن کا مطلب ہے سرحدوں کو بند کرو۔

ترکی نے ایران کے ساتھ دیوار کی تعمیر کی اہمیت پر زور دیا لیکن انھوں نے افغان شہریوں کے ملک میں داخل ہونے کی کوششوں کی تردید کی ہے۔

ترکی کے نائب وزیر داخلہ اسماعیل چاٹکلی نے کہا کہ جب تک دیوار کی تعمیر مکمل نہیں ہو جاتی ترک سرحدوں کو غیر قانونی طریقے سے عبور کرنے کی کوششوں کو روکنے کے لیے خصوصی فوجی دستوں کو استعمال کرے گا۔

ترکی کی جانب سکیورٹی اور تارکین وطن کے حوالے سے سخت رویہ آنے والے وقتوں میں برقرار رکھے جانے کا امکان ہے۔

 

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.