vni.global
Viral News International

پاکستانیو! اناج اُگاؤ، سیاست اور کرکٹ سے پیٹ نہیں بھرتا

کالم: محمد ذوالفقار پشاوری

ہمارے دوست مرزا صاحب اس مرتبہ تشریف لائے تو آتے ہی چائے کی فرمائش کے ساتھ یہ سوال بھی داغ دیا کہ بتاؤ تمہاری نظر میں پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ تو ہم نے انہیں جواب دیا کہ باقی پاکستانیوں کی طرح ہماری نظر میں بھی غیر ملکی سودی قرضے، معیشت کی بد حالی، بے روزگاری اور سب سے بڑھ کر نالائق اور نااہل لوگوں کی حکمرانی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
مرزا صاحب ہمارا یہ جواب سن کر کہنے لگے کہ تم نے جو مسائل گنوائے ہیں یہ تو پچھلے75سالوں سے چلے آ رہے ہیں انہیں حل کرنے کے لئے تو عمرِ خِضر چاہیے۔ بتاؤ اس وقت جو ہماری مالی حالت ہے کیا ہم غیر ملکی قرضے ادا کر سکتے ہیں اور غیر ملکی قرضے ادا نہیں ہوں گے تو معیشت بھی ٹھیک نہیں ہوگی اور معیشت ٹھیک نہ ہوئی تو بے روزگاری اور ناداری بھی کم نہیں ہو گی۔ رہ گئے نالائق اور نا اہل حکمران تو جب تک ہمارے عوام شخصیت پرستی کے سحر سے نہیں نکلتے اِن سے چھٹکارا پانا تو ممکن ہی نہیں۔ ہم40سالوں میں دو بڑے سیاسی خاندانوں سے جان نہیں چھڑا سکے اب تو یہ دو خاندان 13جماعتی اتحاد کی صورت میں 13خاندانوں کا اتحاد بن گئے ہیں اور صرف8ماہ کی حکومت میں اپنے ماضی کے گناہ بھی بخشوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور احتساب کے اداروں کے ”پَر”اور ”ناخن“ کاٹ کر اپنا مستقبل بھی محفوظ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ لہذا اِن کے لئے روڈ ٹو کرپشن پر کوئی رکاوٹ نہیں۔
دوسری طرف ان کے مدِ مقابل پی ٹی آئی کا2جماعتی اتحاد ہے جس میں ایک سیٹ رکھنے والی شیخ صاحب کی جماعت اتحادی ہے۔ پی ٹی آئی کا اپنی پہلی حکومت کا چار سالہ ریکارڈ سابقہ 2خاندانوں کے 40سالہ ریکارڈ کی طرح ہی بُرا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں جھوٹ کا عنصر سابقہ حکومتوں سے زیادہ تھا البتہ کرپشن کی شرح اُن سے تھوڑی سی کم تھی۔ سرکاری اختیارات کی آڑ میں دونوں نے توشہ خانہ لوٹنے اور ملکی خزانہ لوٹنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اب اِن سیاستدانوں سے اچھائی کی اُمید رکھنا اُس عطار کے لونڈے سے دوا لینے والی بات ہی ہے، جس نے پہلے لوگوں کو بیمار کیا تھا۔
یہاں ہم نے مرزا صاحب سے کہا کہ دیکھ یار مرزا یہ ساری باتیں جو تم نے بتائی ہیں سو فیصد ٹھیک ہیں لیکن یہ باتیں تو ہم صبح سے لے کر رات گئے تک ٹی وی چینلوں پر سنتے رہتے ہیں۔ مسائل کو چھوڑو انکا کوئی حل ہے تو بتاؤ۔ تو مرزا صاحب بولے، اِس کا حل انتہائی آسان ہے بس اِس پر کوئی عمل درآمد کرنے والا ڈھونڈنا ہو گا۔ پھر خود ہی بولے کہ ہمارے ملک کی آبادی تقریباً 23کروڑ ہے جس میں سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 60فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ 30فیصد خطِ غربت کے اوپر رینگ رہی ہے۔ باقی10فیصد میں سے 8فیصد اپنی روٹی بآسانی پیدا کر لیتے ہیں جبکہ2فیصد وہ ایلیٹ کلاس ہے، روٹی جس کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ملک کی75فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور یہ وہ آبادی ہے جو اپنے لیے ہی نہیں باقی سارے ملک کے لئے بھی اناج پیدا کرتی ہے۔ یہ لوگ شہری زندگی کے مقابلے میں سادگی سے زندگی گزارتے ہیں۔ محنتی اور جفا کش ہوتے ہیں۔ زمین ان کے پاس کم ہو یا زیادہ یہ اُس سے اناج حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اب ہم ملکی وسائل کا بڑا حصہ شہروں میں غیر ترقیاتی کاموں میں لگانے کی بجائے دیہات میں لگائیں۔ آپ انہیں صرف بجلی، پانی، کھاد اور بیج فراہم کر دیں تو یہ اتنا اناج پیدا کر سکتے ہیں کہ عوام بھوکی نہیں رہے گی اور اس طرح اگر ہمارے بینک انہیں بکریاں اور مرغیاں پالنے کے لئے آسان اقساط پر قرض فراہم کر دیں تو یہ اپنے گھروں کے ساتھ ملکی ضروریات کے لئے بھی گوشت، دودھ اور انڈے فراہم کرنے میں مددگارثابت ہو سکتے ہیں۔ جو پیٹ کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ روزگار کے مواقع بھی پیدا کر سکتا ہے۔ یاد رکھیں انسان کی پہلی بنیادی ضرورت روٹی ہے۔ اس وقت 35روپے کی روٹی اور 150روپے کلو آٹے نے بھوک کا ریٹ بہت بڑھا دیا ہے۔ جس کا واحد حل یہ ہے کہ ہم ملک میں اناج پیدا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ وسائل ہوں تو یہ ملک میں سال میں 2بار ہونے والی فصلوں سے اتنا اناج پیدا کرلیں گے کہ ملک میں کم از کم کوئی بھوکا نہ سوئے گا۔ یہ بات ہماری ایلیٹ کلاس کو بھولنی نہیں چاہیے کہ فرانس میں انقلاب صرف بھوک کی وجہ سے آیا تھا جس میں بھوکی عوام فرانسیسی ایلیٹ کلاس کو کچا چبا گئی تھی۔ تاریخ اور جغرافیے کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ ہمیشہ مثالوں میں زندہ رہتے ہیں، مرتے نہیں اور کسی بھی وقت دوبارہ زندہ ہو جاتے ہیں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.