vni.global
Viral News International

پارلیمنٹرین حضرات آئین پاکستان کو آسان اور سلیس اردو میں لکھوائیں

کالم : محمد ذوالفقار پشاوری

کسی بھی ملک کا آئین اس ملک کی اہم ترین دستاویزات ہوتا ہے جس کی بنیاد پر اس ملک کو چلایا جاتا ہے ۔پاکستانیوں کا کمال دیکھیے یہ 1947 میں آزاد ہوتا ہے اور 1956 تک آئین کے بغیر ہی ملک چلاتے رہے بعد میں یہ آئین نظریہ ضرورت کی نظر ہوگیا اور1962میں جنرل ایوب خان کے بنائے ہوئے آئین نے اس کی جگہ لے لی جسے جاتے جاتے ایوب خان خود ہی ختم کرگئے ۔ پاکستان کاپہلا متفقہ آئین 1973میں ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت میں بنا جو لاتعداد پنکچرلگ جانے کے باوجود آج بھی چل رہا ہے ۔ اس آئین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ جلیبی کی طرح بل دار بھی ہے اور موم کی ناک کی طرح نرم بھی جسے باآسانی اپنی مرضی سے موڑا بھی جاسکتا ہے ۔ اس کی اس خوبی کی وجہ سے ہی جنرل ضیاء الحق  اپنے فوجی بوٹو ں سمیت اس میں اپنا نام لکھواتےاور آئین کی شق 2-58بی شامل کرنے میں کامیاب ہوتے تھے ۔جسے جنرل ضیاء الحق کے بعد ان کے جانشینوں نے بھی استعمال کیا جسے بالآخر ان کے منہ بولے بیٹے نواز شریف نے آئین سے نکالا ۔

موجودہ دور میں 1973 کے آئین کی دونوں خوبیاں جلیبی کی طرح بل دار ہونے اور موم کی ناک کی طرح نرم ہونا عوام اور حکمرانوں کیلئے درد سر بنی ہوئی ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں آنے والے اراکین کی اکثریت قانون کی ق اور لاء کی ایل سے بھی واقف نہیں ہوتی ۔انہیں کسی بھی آئینی مسئلےکیلئے عدالتوں کی طرف بھاگنا پڑتا ہے جبکہ عدالتوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ آئین میں ایک کالے حرف یا فل سٹاپ کا بھی اضافہ نہیں کرسکتیں صرف آئین کی تشریح کرسکتی ہیں ۔ جس کی وجہ سے آئینی معاملات مہینوں لٹکے رہتے ہیں اور عدالتوں کا قیمتی وقت  برباد  ہوتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال حال ہی میں ختم ہونے والی پی ٹی آئی کی حکومت ہے جسے دیگر حکومتوں کی طرح پی ٹی آئی نے بھی قبول نہیں کیا تھا ۔ اسپیکر کی رولنگ نے معاملات کو مذید الجھایا تو مجبورا ً عدالتوں کے ذریعے پی ٹی آئی کی حکومت کو گھر جانا پڑا ۔ حکومت سے نکالنے جانے کے بعد پی ٹی آئی کا چیئر مین  ہرروز  ایک نیا بیانیہ لیکر عوام میں آجاتا ہے اور اس کا ہر بیانیہ عوام میں اس لئے بکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بعد آنے والی حکومت ان سے بھی زیادہ نالائق ثابت ہوئی ہے وہ صرف کرپشن کیسز ختم کروانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کررہی ۔ ملک میں مہنگائی پی ٹی آئی دور کے مقابلے میں دوگنی ہوچکی ہے ۔ ملک میں آٹا مہنگا ہی نہیں بلکہ ناپید بھی ہورہا ہے ۔معاشی ماہرین بار بار ملک کے دیوالیہ ہونے والے خطرات سے حکومت کو آگاہ کررہے ہیں اور حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔کیونکہ حکمرانوں کو ملک کے دیوالیہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا انہوں نے بیرون ممالک میں پہلے ہی اپنے ٹھکانے بنائے ہوتے ہیں وہ اپنا سامان اٹھا کر وہاں شفٹ ہوجائینگے ۔تباہ ہوگی تو پاکستانی عوام جس کے پاس اپنے ملک میں رہنے کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں ہے ۔اس وقت پی ٹی آئی موجودہ حکومت کیخلاف صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سمیت تمام کارڈز استعمال کر چکی ہے ۔لگتا ہے سارے معاملات پھر عدالتیں ہی حل کریں گی کیونکہ آئین میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کیلئے کھیلنے کی گنجائش ہے ۔دونوں اپنے اپنے طور پر آئین کی تشریح کررہی ہیں کس کی تشریح درست ہے اس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں ہی ہوگا اس اکھاڑ پچھاڑ  میں عوام کا مذید کتنا خانہ خراب ہوگا دیوار پر لکھا نظر آرہا ہے لیکن ساون کے اندھوں کو اب بھی ہر طرف ہرا  ہرا ہی نظر آرہاہے  تو ایسے اندھوں کا کوئی کیا علاج کرے گا ۔

اس صورتحال کو دیکھ کر پاکستان کے اہل علم اور اہل عقل لوگوں کی رائے ہے کہ پاکستان کی اعلی عدالتوں کے جج صاحبان اور پارلیمنٹ  کے قانون کے ق اور لاء کے ایل سے واقفیت رکھنے والے اراکین مل جل کر آئین پاکستان کو بغیر کسی تبدیلی کے آسان اور سلیس اردو میں لکھوائیں تاکہ پاکستان کا ہر شہری آسانی سے آئین کی زبان سمجھ سکے اور سیاستدان انہیں اپنی اپنی مرضی کی تشریحات کے مطابق عوام کو مزید بے وقوف نہ بناسکیں ۔اگر ایسا ہوجائے تو ہماری عدالتوں کا بھی بہت سا قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچ جائے گا ۔ آخر ہم کب تک رادھا کے ناچنے کیلئے 9 من تیل کی شرط برقرار رکھیں گے اب تو 9 من تیل رادھا سے زیادہ مہنگا ہے اور آخر ہمیں رادھا کا ناچ دیکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ آگر آپ چاہیں تو بہت ساری رادھاؤں کو ٹی وی ایوارڈز  کی تقریب میں مفت ناچتے دیکھ سکتے ہیں ۔

نوٹ : آسان اور سلیس اردو میں لکھا ہوا آئین نصاب کا حصہ ضرور بنوائیں

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.