ای او بی آئی کے خیرات خور پنشنر
کالم : محمد ذوالفقار پشاوری

پاکستانی حکومت پنشنروں کو ان کی پنشن خیرات میں نہیں دیتی۔ یہ اُن پنشنروں کی جمع شدہ رقم ہوتی ہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں دی جاتی ہے۔ ہمارے پنشنر چند سال پہلے تک کتنی تکلیف سے سردیوں اور گرمیوں میں بینکوں کے باہر دھکے کھا کھا کر اپنی پنشن وصول کیا کرتے تھے، کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں۔ لیکن اب شکر ہے کہ بینکوں کے جدید بینکاری نظام کی بدولت انہیں کافی سہولیات مل گئی ہیں اور انہیں پہلے کی طرح پنشن کے لئے ذلیل خوار نہیں ہونا پڑتا۔
پاکستان میں بھٹو صاحب کی حکومت سے پہلے پرائیویٹ اداروں میں پنشن لازم نہیں ہوا کرتی تھی۔ بھٹو صاحب کے دور حکومت میں E.O.B.I کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا جس کے ذریعے پرائیویٹ اداروں کو اس بات کا پابند بنایا گیا کہ وہ اپنے ورکرز کو اس ادارے میں رجسٹر کروائیں اور اُنکی تنخواہوں سے کی گئی کٹوتی کے برابر رقم ادارہ اپنی طرف سے ڈائریکٹE.O.B.Iمیں جمع کروائے۔ اس طرح جمع ہونے والی رقم سے E.O.B.I اِن ورکرز کو60سال کی عمر کے بعد پنشن کی ادائیگی کا ذمہ دار ہو گا۔
یہ پروگرام شروع ہوتے ہی ادارے کے پاس کروڑوں روپے جمع ہونا شروع ہو گئے۔ خرچہ صرف ادارے کے ملازمین کی تنخواہیں تھیں۔ یوں ادارہ مالی طور پر بہت مظبوط ہوتا گیا۔ افسروں کے لئے بڑی بڑی گاڑیاں خریدی گئیں اور پنشنروں کے پیسوں پر ادارے کے ”بڑے“عیش کرنے لگے۔ شنید ہے کہ اِس ادارے کے کچھ ”بڑوں“ نے ادارے کے پیسے اسٹاک مارکیٹ میں بھی لگائے تھے۔ واللہ علم بالصواب
اِس ادارے E.O.B.I کے پنشنر کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ انہیں آج تک اس بات کا علم نہیں کہ وہ پنشنر ہیں یا خیرات خور۔ کیونکہ اُنکی پنشن کا بڑھانے کا اختیار آرمی چیف کی تعیناتی کی طرح وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار لگتا ہے۔ جب کسی وزیر اعظم کو اِن پنشنروں کی پنشن بڑھانے کا خیال آتا وہ خیرات کی طرح تین چار سال بعد اس پنشن میں ڈھائی تین ہزار روپے اضافہ فرما دیتا ہے۔ آج2023ء میں ایک E.O.B.I پنشنر کی ماہانہ پنشن مبلغ 8500/-روپے ہے۔ نواز شریف صاحب نے اِسے5500/-روپے کیا تھا۔ اُس کے تقریباً3سال بعد عمران خان صاحب نے اسے8500/-روپے کیا تھا۔ اب اس بات کو بھی تین سال ہونے والے ہیں۔ خان صاحب نے اِسے12000/-روپے کرنے کا عندیہ تھا۔ لیکن بعد میں اپنے دیگر کیے گئے وعدوں کی طرح وہ یہ بات بھی بھول گئے۔
ملک میں آج جس قدر مہنگائی ہے اِسے دیکھتے ہوئے E.O.B.I کے پنشنر چیف جسٹس آف سپریم کورٹ، وفاقی محتسب اور E.O.B.I کے ارباب اختیارسے درخواست کرتے ہیں کہ وہ یا تو ان پنشنر کی پنشن نما خیرات کو مکمل طور پر بند کر دیں یا پھر اس کے لئے کوئی واضع طریقہ کار اور پالیسی بنوائیں جس میں ایک E.O.B.I پنشنر کی پنشن کم از کم 12000/-روپے تو ہو۔ اِس وقت گریڈ Iکا ایک سرکاری ملازم (مالی، چوکیدار، چپڑاسی) بارہ ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ پنشن وصول کر رہا ہے۔ جس میں سالانہ 10سے15فیصد اضافہ بھی ہوتا ہے۔ اگر آپ یہی اضافہ E.O.B.I پنشنر کا بھی سالانہ کے حساب سے مقرر کروادیں تو آپ کے حصے میں لاکھوں لوگوں کی دُعائیں آجائیں گی اور غریب E.O.B.I پنشنر کے گھر کا صرف مہینے کا آٹا آجائے گا۔ اس وقت ملک میں ایک کلو آٹا150/-روپے کا اور ایک ہوا سے بھری ہوئی روٹی30/-روپے کی مل رہی ہے، جو اگلے بجٹ کے بعد40/-روپے کی ہو جائے گی۔ حکومت E.O.B.Iپنشنر کو اتنی پنشن تو دیں جس سے وہ صرف آٹا ہی خرید سکے اور وہ اُسے پانی میں گھول گھول کر پی لیا کریں۔ جس ملک میں 10کلو آٹے کے لیے لوگوں کو مرنا پڑے وہاں پانی میں گھولا گیا آٹا بھی غنیمت ہوتا ہے۔