vni.global
Viral News International

احمقوں کی بڑی نشانی، آزمائے ہوؤں کو آزمانا ہوتا ہے۔

کالم: محمد ذوالقفار پشاوری

پاکستان کی 75سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپکو واضح اور صاف نظر آئے گا کہ ان75سالوں میں یہاں کے حکمرانوں اور عوام کا تعلق آقا اور غلام والا رہا ہے۔ اور اِسی ظالمانہ تعلق کی وجہ سے ہمارے بنگالی بھائی پاکستانیت چھوڑ کر بنگلہ دیشی بن گئے۔ لیکن یہ سانحہ بھی پاکستانیوں کی آنکھیں نہ کھول سکا۔ دراصل پاکستانی عوام کی تکالیف کی وجہ اُن کی شخصیت پرستی کا مرض ہے۔ جس کے بارے میں ہمارے استاد صاحب کا فرمانا ہے کہ بت پرستی اور شخصیت پرستی میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ فرق صرف سزا کا ہوتا ہے۔ بت پرست مرنے کے بعد بت پرستی کی سزا کاٹتا ہے جبکہ شخصیت پرست اِسی دنیا میں ہی اس کی سزا کاٹتا ہے۔
لگتا ہے کہ پاکستان بنا ہی خطرات کی فالٹ لائن پر ہے۔ ہر وقت یہ ملک خطرے اور نازک دور سے ہی گزرتا رہتا ہے۔ لیکن محترم ضیاء الحق کے دور اقتدار سے اِن خطرات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ ان خطرات سے نمٹنے کے لئے ہم امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی بنے۔ پتھر کے زمانے میں بھیجے جانے کی دھمکیاں سُنیں۔ ڈالروں کے لئے اپنی ماں کو بیچنے والا طعنہ سُنا۔ لیکن اس ملک کو درپیش خطرات کم نہ ہوئے۔ یہ بھی ضیاء الحق صاحب کی مہربانی تھی جنہوں نے ہمیں جنرل جیلانی کے توسط سے محترم نواز شریف صاحب جیسا لیڈر ڈھونڈ کر دیا۔ جو تین مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم بنے۔ سیاست میں آئے تو لکھ پتی تھے، سیاستدان بنے تو کھرب پتی بن گئے۔ قسمت کے اتنے دھنی نکلے کہ تین مرتبہ وزارت عظمیٰ سے نکالے گئے اور واپسی پر تینوں بار وزیراعظم بنا دیے گئے۔ سیاست میں انکی حریف محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں۔ وہ بھی دو بار ملک کی وزیراعظم بنیں لیکن یہ دونوں ملک کو قرضوں اور عوام کو مہنگائی سے نجات نہ دلا سکے۔
2018؁ء تک یہاں ن لیگ اور پیپلز پارٹی باریاں لگا کر حکمرانی کرتی رہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو کرپٹ اور چور کہہ کر باریاں بدلتے تھے۔ دونوں آئی ایم ایف سے قرض لے کر ملک چلاتے تھے۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ سے مال بناتے تھے۔ سرئے محل، ہیروں کا نیکلس، ایون فیلڈاپارٹمنٹس اور سوئس اکاؤنٹ۔ ان دونوں پارٹیوں کے دور حکومت کی ہی یادگاریں ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب دونوں پر بُرا وقت آیا تو دونوں میثاق جمہوریت کے ذریعے بہن بھائی بھی بنے۔ یہ سب ہوتا دیکھ کر پی ٹی آئی تھرڈ آپشن کے طور پر میدان میں آئی اور عوام کو کروڑوں نوکریاں اور لاکھوں گھر کے خواب دکھا کر 2018؁ء میں حکمران بن گئی۔ خان صاحب ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ پی ٹی آئی نے شروع کے دِنوں میں عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے وزیر اعظم ہاؤس کی پرانی گاڑیاں اور بھینسیں تک فروخت کیں۔ دوست ممالک سے قرضوں کی بات کی گئی، جب انہوں نے بھی ہری جھنڈی دکھا دی تو خان صاحب نے اُسی آئی ایم ایف سے قرض لینے کا فیصلہ کیا جس کے پاس جانے پر وہ خودکشی کو ترجیح دیتے تھے اور پاکستانی تاریخ کی سب سے زیادہ ذلت آمیز شرائط پر آئی ایم ایف سے قرض کا معاہدہ کر لیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی کا سونامی آگیا اور عوام اس میں غوطے کھانے لگی۔ پھر یہی مہنگائی پی ٹی آئی کو گھر بھجوانے کی وجہ بنی اور اب گھر جا کر یہ پارٹی ہر روز ایک نیا بیانیہ لے کر میدان میں آجاتی ہے۔ اب اس پارٹی نے اپنی توپوں کا رُخ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کی طرف کیا ہوا ہے۔ جنہیں وہ کبھی پاکستان کی سب سے ممتاز شخصیت کہا کرتے تھے۔ اپنی نالائقیوں کی وجہ سے پی ٹی آئی اپنے انجام کو پہنچی تو عوام پر پی ڈی ایم مسلط ہو گئی۔ پی ڈی ایم اُن13سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جو پچھلے 40سالوں سے پاکستانی عوام کو لوٹ لوٹ کر کھا رہا ہے۔ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی پہلے تو اپنے اوپر بنے ہوئے سارے کرپشن کیسز ختم کروائے۔ ڈار صاحب نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط من و عن تسلیم کیں۔ لیکن آئی ایم ایف نے ڈار صاحب کی ایک نہ مانی اور1.3ارب ڈالر کی قسط اب تک روکی ہوئی ہے۔ ڈار صاحب کا حالیہ بجٹ آئی ایم ایف کو تو چھوڑیں خود ان کے اتحادی نہیں مان رہے۔ بلاول بھٹو بجٹ پاس نہ ہونے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کا سیلاب مزید خطرناک ہو گیا ہے اور اس سیلاب میں عوام کی بڑی تعداد کو جان بچانا مشکل نظر آرہا ہے۔ پاکستان کے نئے وزیر اعظم جناب شہباز شریف صاحب نے مہنگائی سے عوام کو مروا کر ملک کو تو بچا لیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی شخصیت پرست عوام یہ بھوک مزید کتنے دِن برداشت کر سکتی ہے۔ اس بھوک کے ناقابل برداشت ہونے سے خدانخواستہ فرانس کی عوام والی راہ تو نہیں اپنا لے گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔ سُنا ہے فرانس کی عوام تو پاکستانی عوام سے بھی زیادہ کمزور تھی۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.